(مہنگائی کے موجودہ دور میں اپنی تعلیم اور ہنرمندی سے بھرپور فائدہ اٹھائیں)
چند اہم مشورے جن پر عمل کر کے آپ گھر اور دفتر دونوں جگہ مکمل انصاف کر سکتی ہیں
ہر صبح گھرمیں ایک ہنگا مہ سا برپا ہو جا تاہے۔
نسیمہ کے ساتھ ایک عام سی بات ہے۔بلکہ میں سمجھتی ہوں کہ تقریباً ہر گھر میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ایک شور، ایک ہنگامہ، اس کے بعد ایک عجیب انداز کی خامو شی۔ شوہر صاحب دفتر جا چکے ہوتے ہیں اور بچے اسکول۔ اس وقت ایک خاموشی پورے گھر کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ جبکہ اس سے پہلے بچوں کو چیخ و پکا ر، شوہر کی آوازیں، ریڈیو کی خبریں، چولہے، مائیکر و ویو، ویکیو م کلینر، واشنگ مشین، استری اور جب یہ سب کچھ اپنا اپنا کام کر چکے ہو تے ہیں تو اس کے بعد ایک طویل خامو شی۔اب سب کے بعد نسیمہ آرام سے بیٹھ کر ایک کپ چائے پیتی ہے۔ اخبار دیکھتی ہے۔ میگزین دیکھتی ہے۔ ایک طویل باتھ لیتی ہے۔ اس کے بعد دوپہر کے کھانے کی تیاری کرنے لگتی ہے۔کھا نے سے فارغ ہو کر اس کی سمجھ نہیں آتا کہ وہ اب کیا کر ے۔ وہ آرام کرنے کے لیے لیٹتی ہے اور اسے نیند آجا تی ہے۔ شوہر اور بچوں کے آنے میں بھی ابھی دیرہے۔ اسے نیند آجاتی ہے۔ گہری نیند۔اور اس بے وقت سونے سے اس کے وزن میں اضا فہ ہو جا تاہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے اکتا دینے والے نظام الاوقات سے کس طر ح نجا ت حاصل کی جا ئے۔ کوئی ایسا کام ہو کہ اس کی مشغولیت میں دلچسپی کا پیوند لگ سکے۔
یہ بھی درست ہے کہ وہ پڑھی لکھی ہے۔ وہ کہیں ملا قات کر کے اس صورت حال سے نجا ت حاصل کر سکتی ہے۔ وہ جتنی اس صورت حال پر غور کرتی جاتی ہے اس قدر امکا نا ت واضح ہوتے جا تے ہیں۔ تقریباً ہر ایسے گھر میں جہاں بیوی پڑھی لکھی ہو۔ کچھ اسی قسم کی با تیں ہوا کر تی ہیں۔ اسے جا ب کرنا چاہئے یا نہیں۔ اس قسم کی خواتین دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہیں۔ ایک وہ جو بالکل گھریلو قسم کی ہو تی ہیں۔ ان کے شب و روز اپنے گھر میں شوہر اور بچوں کے درمیان گزرتے ہیں۔ وہ گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی تربیت میں مصرو ف ہو جا تی ہیں۔ اور دوسری وہ خواتین ہوتی ہیں جو شانہ بشانہ ساتھ چلتی ہیں۔ جو گھرمیں زیادہ دلچسپی نہ لیں۔ لیکن دفتر میں کام کرکے گھر کے اخراجا ت میں اپنا حصہ بٹانے کی ضرور کو شش کرتی ہیں۔
تکلیف د ہ احساس
پڑھی لکھی لڑکی شادی کے بعد اگر صرف گھر کی ہو کر رہ جائے تو اس کو بے شمار قسم کے اندیشہ لا حق ہو جاتے ہیں۔ وہ سوچا کر تی ہے کہ آخر اس نے کس لئے تعلیم حاصل کی تھی۔ صر ف چو لہا چکی کے لیے۔ آخر اس کی تعلیم، اس کے گھر اور پورے معا شرے کے کس کام آرہی ہے؟ وہ تو صرف گھر کی ہو کر رہ گئی ہے۔ جس کے پاس وقت گزارنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ گھر میں رہو۔ کھانا بناﺅ۔ یا فون پر الٹی سیدھی باتیں کر تے رہو۔
وہ چونکہ ایک پڑھی لکھی اور سمجھدار عورت ہے۔ اسی لئے گھر کا انتظام بہت خو ش اسلو بی سے چلا رہی ہے۔ جب وہ گھر کا انتظام چلا سکتی ہے۔ تو آخر وہ اپنی مر ضی سے کسی دفتر میںکام کیوں نہیں کر سکتی۔ اپنی مر ضی اور اپنے ارا دے سے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس معا شرے میں اپنی شنا خت چاہتی ہے۔ تا کہ اس کی حیثیت کو بھی تسلیم کیا جائے۔ اسے بھی کچھ سمجھا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ جس گھر میں بیا ہ کر گئی ہے وہاں روپے پیسوں کی اتنی ضرورت نہ ہو۔ گھر میں خوشحالی ہو۔ لیکن اگربیوی یا بہو کی وجہ سے اگر چند ہزار کی آمدنی فاضل آ جاتی ہے تو اس میں کیا برائی ہے ؟ وہ اپنے پیسوں سے اپنے اخراجات پو ر ے کر سکتی ہے۔ آنا جا نا، کا سمیٹکس،کپڑے وغیرہ اپنے پیسوں سے خرید سکتی ہے۔ شوہر یا بچوں کی سالگرہ وغیرہ کے مو قع پر وہ انہیں خود تحفہ خر ید کر دے سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سسرال والوں کے لئے اس کے تحفے وغیرہ کی اتنی زیادہ اہمیت نہ ہو۔ لیکن خود اس کے لیے کتنی بڑی خوشی اور سکون کی بات ہو گی۔ وہ اپنے آپ کو کتنا مطمئن محسو س کرے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ جب عورت کے کام کرنے میں اتنی آسانیاں اور فوائد ہیں تو پھر مخالفتیں کیوں اور کہاں سے شرو ع ہو تی ہیں ؟ کیا وجہ ہو تی ہے ان کی؟
اہمیت کا ٹکراﺅ
عام طور پر اس قسم کے گھر وں میں اختلا ف رونما ہونے شروع ہو جا تے ہیں۔ اور اندازہ نہیں ہو پا تا کہ یہ اختلا ف کیوں شروع ہوئے۔ لیکن عام طور پراس کی وجہ اہمیت اور حقیقت کا ٹکراﺅ ہو ا کر تا ہے۔ جہاں مفادات اور ضروریا ت کا ٹکراﺅ ہو ا کرتاہے۔ مثال کے طور پر سسرال میں آج شام آنے والے مہمان زیادہ اہم ہیں۔ یا دفتر میں ہونے والی ضروری میٹنگ۔
بچوں کی پڑھائی زیادہ اہم ہے۔ یا دفتر میں ہونے والا آڈٹ۔ جس میں اس عورت کو بھی مصروف رہنا پڑتا ہے۔ آخراسے کیا کرنا چاہئے ؟ وہ اپنے شو ہر کے ساتھ اکیلے مکان میں رہتی ہے۔ ساس سسر کچھ دنوں کے لیے رہنے آرہے ہیں تو پھر وہ کیا کرے؟ بدستور دفتر جاتی رہے یا دفتر سے کچھ دنوں کی چھٹی لے لے۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ وہ اپنے دفتر کی چھٹیوں کو کسی ناگہانی کے لئے بچا کر رکھے۔ اس قسم کے اختلافات، اس قسم کی اولیت، اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور اختلافات شوہر اور بیوی کے درمیا ن کشیدگی کا سبب بنتے جا تے ہیں۔ رائی سے شروع ہونے والے یہ مسائل بالا ٓخر پہاڑ بن کر سامنے آجا تے ہیں۔
اس اختلا ف کا پہلا رد عمل ذہنی ہو اکر تا ہے۔ اور بعد میں جسمانی رخ اختیا ر کر لیتا ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 187
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں